
ناظم الدین فاروقی
(اسکالر ، تجزیہ نگار ، کالمنویس ،اوپینین لیڈر اور سماجی جہد کار)
ہندوستان تاریخ کے ایک اضطراب آمیز و الجھن کے دور سے گذر رہا ہے ۔ یہ بات بڑی خوش آئیند ہے کہ ملک میں اب بھی جمہوریت کی بنیادیں مضبوط ہیں اور تمام شہریوں اور طبقات کے لیےء امید کی کرن روشن ہے۔ حالیہ 3 ماہ میں مہاراشٹرا اور جھارکھنڈ اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو زبردست جھٹگہ لگا ہے ۔ ظلم و استبداد کی سیاست کو صدمہ سے دوچار ہونا پڑا ۔ جھارکھنڈ میں قبائلیوں کو ہندوؤں میں شامل کرنے کے خلاف زبردست احتجاج بلند ہو ا تھا دوسرے ملک میں گاؤ رکھشکوں کے ہجومی تشدد میں سب سے زیادہ ھلاک ہونے والوں کی بڑی تعداد بھی یہیں سے ہے۔ ایک بے قصور نوجوان تبریز انصاری کو کھمبے سے باندھ کر جے شری رام کے نعرہ نہ لگانے پر بری طرح زدوکوب کر کے ھلاک کردیا گیا تھا۔ آج ان معصوموں کا خون رنگ لایا اور اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کی تمام تر کوششوں ‘EVM ‘ کے الٹ پھیر کے باوجود بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ خوش آئند بات یہ ہیکہ چیف منسٹر ھیمنت سورین نے حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلے احتجاجیوں کے خلاف درج تمام مقدمات کو واپس لےلیا جو بی جے پی حکومت نے حراساں کرنے کیلےء زبردستی غیر قانونی طور پر درج کئےء تھے۔ اسکے علاوہ گاؤ رکھ شک ہجومی تشدد مین ملوث اصل قاطعوں کے مقدمات کو دوبارہ کشادہ کردیا ۔
مہاراشٹرا میں ایک طویل عرصے سے بی جے پی کے ساتھ شریک شیو سیناء نے حالیہ انتخابات کے بعد اپنی تائید واپس لے لی جمہوریت کا ایک درخشاں پہلوNCP کے قائد شرد پوار کے مضبوط سیکیولر کردار سے بھی سامنے آیا ہے جنہوں نے پیرانہ سالی میں بھی بی جے پی کے خلاف اکیلا تنہا ء لڑا ہے۔ایک سال میں بی جے پی کو 5 ریاستی انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ بی جے پی نے 303 نشتیں پارلمنٹ میں حاصل کیں ، غرور ، تکبّر اور مسلمانوں کے دستور ہند کے سیکیولر کردار کے خلاف اپنے اصلی ایجنڈے کے مطابق بڑے ہی تیزی سے من مانی یک طرفہ 6 ماہ میں ایک کے بعد دیگر پے درپے قوانین بناڈالے۔29 جولائی 2019تین طلاق ، 2 آگسٹ UAPA 2019، 5 آگسٹ 2019 کشمیر کے خصوصی موقف کی بر خواستگی اسکے علاوہ 31 آگسٹ 2019 NRC آسام کی اجرائی۔9 نومبر 2019 کو سپریم کورٹ کا بابری مسجد پر انتہائی افسوسناک رام مندر کی تائید میں فیصلہ سنایا گیا۔ اور 10 ڈسمبر 2019 کو CAA جیسے معاندانہ قوانین منظور کئے گئے۔
بی جے پی کی معاندانہ طوفانی قانون سازی کے دوران وزیر اعظم مودی نے دنیا اور بالخصوص خلیجی ممالک کی آنکھوں میں دھول جھونک کر متحدہ امارات کا اعلی ترین ایوارڈ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کرلی ۔ بی جے پی زیادہ عرصہ تک اقوام عالم اور خود اپنی عوام کو جھوٹ بول کر بے وقوف بنانے میں بہت زیادہ کامیاب نہیں ہو سکے گی۔ اگر سنجیدگی سے ان تمام قوانین ، عدالتی فیصلوں اور پالیسیوں کا ہم بغور مطالعہ کریں تو یہ بات آسانی سےسمجھ میں آجائیگی کہ یہ جھوٹی بے محل توضیحات اور لغوء من بھاتی باتیں کر کے عوام کو گمراہ کر رہے ہیں۔ پہلے قوانین کا کراک ڈاؤن پھر احتجاجیوں پر فوج اور پویس کا کراک ڈاؤن کیا گیا ہے۔
CAA اور NPR کے خلاف گاؤں گاؤں میں پر امن عوامی احتجاج مظاہروں نے ملک کو دہلا دیا۔ اور احتجاجیوں کی گونج کو میڈیا و سوشیل میڈیا پر دبانے کی کوشش کی لیکن دنیا کے کونے کونے میں مذکورہ مظالم کے خلاف آوازیں سنی گئیں اور دنیا کے کئی بڑے شہروں میں بھی ان ظالمانہ قوانین کے خلاف احتجاج آج بھی جاری ہے۔
آسام کشمیر ، یوپی، کرناٹک اور دیگر بی جے پی ریاستوں میں پولس نے پرامن احتجاجیوں کے خلاف جس ظلم و بر بریت کا مظاہرہ کیا اس سے انگریزوں کے کئے گئے مظالم بھی ماند پڑگئے۔ظالم وقت چیف منسٹر آدتیا ناتھ یوگی کے ایک اشارہ پر یوپی پولس نے منصوبہ بند طریقے پر مسلم گھروں ، مدرسوں ، مساجد اور کاروبار ی مقامات پر گھس گھس جو توڑ پھوڑ مچائی اور نہتّے معصوم نوجوانوں کے سینوں میں گولیاں پیوست کردیں ۔ جسکی وجہ سے 20 سے زیادہ افراد ھلاک ہو گئے جس میں معصوم بچّے بھی شامل ہیں اسکے علاوہ بزرگ شہریوں ، عمر رسیدہ اساتذہ کو اٹھا کر لے جا کر تھرڈ ڈگری ٹارچر کیا گیا۔سینکڑوں لوگوں کی مار مار کر ہڈّیاں توڑدی گئیں ،۔بچّوں کے ساتھ جنسی زیادتیاں کی گئیں جس میں 100 سے زیادہ بچّے زخمی ہو چکے ہیں ۔ پھر بربریت کا عالم یہ ہیکہ 2 آگسٹ 2019 کو جو UAPA قانون بنایا گیا تھا اسکا پہلا استعمال یوپی میں شروع کردیا گیا اور احتجاجیوں وہ عام مسلم شہریوں کے املاک ضبط کرنے شروع کردئیے۔ اسمیں چند غیر مسلم سیکیولر سماجی جہد کاروں کی جائیدادوں کو بھی ضبظ کرلیا گیا۔ جلسے جلوس اور احتجاج پر ایک سیکیولر جمہوری ملک میں کیا پولس اپنے پر امن شہریوں کے خلاف ھلاکت خیز کراک ڈاؤن کرنے کا اختیار رکھتی ہے؟ایسا محسوس ہوتا ہے ، اسرائیل کے مظالم کا ماڈل دوہرایا جا رہا ہے اور صدیوں پرانا انتقام لیا جارہا ہے۔ یوپی پولس نے جائیدادوں کی ضبطی کے لیےء جو وجہ نمائی نوٹس جاری کیں کثیر ہر جانے کا مطالبہ کیا گیا ہے ، انہیں 30 دن کا موقع دیا گیا ، جب ہریانہ میں جاٹوں کے احتجاج میں 35 ہزار کروڑ کے عوامی املاک کا نقصان ہوا تھا،کسی کو بھی اسطرح کی نوٹس نہیں دی گئی تھی۔
سپریم کورٹ نے اپنے کئی فیصلوں میں یہ بات صراحت کے ساتھ کہ دی ہیکہ عوامی احتجاج جمہوریت کا ایک اہم پہلو ہے۔ حکومت کے خلاف اٹھائی جانے والی آواز کو ملک سے بغاوت کے نام پر ہر گز دبایا نہیں جا سکتا۔
جولائی 2019 میں جنرل راوت نے کہا تھا کہ جو پتھر اٹھائے گا وہ گولی سے ماردیا جائیگا۔ دوسری بات جھارکھنڈ کے انتخابی جلسے میں وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی تقریر میں رکیک حملہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ “گڑ بڑ کرنے اور تشدد پھیلانے والوں کو انکے کپڑوں سے پہچان سکتے ہو”
یہ دونون باتیں پولس نے عملی طور پر کر دکھائیں ۔ جتنے معصوم ھلاک ہوئے ہیں ان میں سے اکثر سفید کرتے پاجامے میں ملبوس تھے۔ اور جسنے بھی احتجاج کا نعرہ بلند کیا تھا وہ لاٹھی سے مارا گیا یا وہ گولی سے ھلاک کردیا گیا ۔دنیا نے مدرسے کے معصوم طلباء کی تڑپتی لاشیں بھی دیکھیں۔ آج غیر مسلم سیول سوسائیٹی کے غیور شہریوں کا عوامی احتجاج ملک کے طول و عرض میں جاری ہے یہہی اصل جمہوریت کا ایک درخشاں پہلو ہے۔
بدھسٹ قبائل ، چکماء اور ہندو قبائل Hajongs پناہ گزیں 50 ہزار سے زیادہ تعداد میں ارونا چل پردیش میں آباد ہیں ، انہیں CAA کی منظوری سے قبل ہی ہندوستان کی شہریت دے دی گئی۔ روہنگیا مسلمان جو پڑوسی بدھسٹ ملک برما میں مظالم کا شکار ہو کر ہندوستان میں پناہ لیےء ہوئے ہیں انہیں محض اسیلےء شہریت نہیں دی گئی کہ وہ مسلمان ہیں ۔ CAA قانون میں سوائے مسلمان پناہ گزینوں کے سب کو شہریت کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔ اور صدیوں سے بسنے والوں کے آبا و اجداد کے تفصیلات و کاغذات پوچھے جا رہے ہیں ۔ آسام میں کیا ہو ا ۔ یہ ہی تو ہوا کہ ریکارڈ و کاغذات کے اندارجات ایک دوسرے سےمیل نہیں کھا رہے ہیں۔ لھذا وہ بنگلہ دیشی شہری قرار دیا جارہا ہے۔
ایک مرتبہ فارن ٹریبویونل کو کیس حوالے کرنے کے بعد متاثرہ مظلوم شہری کو پھر ملک کی کوئی عدالت راحت دینے تیار نہیں ۔ عدلیہ کے تیور جو گذشتہ دو سال سے سامنے آئے ہیں وہ بڑے ہی تشویشناک ہیں F.T کے تمام کیسس کو ہائی کورٹ پھر سپریم کورٹ ہر اس فیصلے کو حق بجانب قرار دے رہا ہےجس میں کسی بھی شخص کو ایک مرتبہ بنگلہ دیشی قرارد دے دیا گیا اسے یا جیل میں سڑ کر مرنا ہے یا پھر سر حد پر زبردستی ڈھکیل دیا جائے گا۔
آسام میں NRC کی حتمی فہرست کے بعد جو بد ترین حالات سے بنگالی مسلمان دوچار ہیں اسکا اندازہ کسی بھی ہندوستانی شہری کو کرنا مشکل ہے۔ مصائب و مشکلات کے بادل پھٹ پڑے ہیں ، 9 لاکھ بنگالی ہندؤں کو شہریت دینے کا بار بار اعلان ہو چکا ہے۔ اب جو 8 لاکھ مسلمان بنگالیوں کو خارج کردیا گیا ہے اگر انکے افراد خاندانوں کو جوڑ لیں تو یہ تعداد 18 لاکھ سے بھی تجاوز کر جائیگی۔ کہنے کو تو یہ کہا جا رہا ہے کہ یہ معاملہ ہندو مسلم کا نہیں ہے لیکن حقیقت واقعہ یہ ہیکہ لفظ مسلمان کے ساتھ کوئی عدل و انصاف اور رحم کا معاملہ نہیں کیا جارہا ہے۔ فارن ٹربیونل کے ججس مسلمان کا نام دیکھتے ہی طیش میں آجاتے ہیں اور بڑی حقارت سے پیش آتے ہیں سب کچھ اسنادات و لیگیسی ڈاٹا ہونے کے باوجود بنگلہ دیشی قرار دینے میں بڑی عجلت دکھا رہے ہیں ۔ ہندوستانی مسلمانوں کو CAA اور NRC کے تناظر میں NPR کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب ملک کا بچّہ بچّہ جان چکا ہے کہ یہ ایک لامتناہی سلطانی مصائب کا کبھی نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے ۔ یاد رہے RSS کے پالیسی سازوں نے NPR کے خوبصورت قانونی نام کے تحت ایک زہر آلود جال پھیلا دیا ہے جس میں غیر محسوس طریقے سے ہر ایک شہری بآسانی اس ٹراپ میں پھنس جائیگا، ہمار احساس یہ ہیکہ جسطرح سے بابری مسجد کے مقدمہ کو تیس سال تک طوالت دے کر پھر مسلمانوں کو وہی محرومی کا سامنا کرنا پڑا ٹھیک اسی طرح سے NPR اور NRC کا ھلاکت خیز چکّر آئندہ آنے والی نسلوں کو بھی تباہ و برباد کر سکتا ہے ۔
آج میانمار روہنگیا پر ،چین یغور پر اور اسرائیل فلسطینویوں پر بدستور اپنے مظالم جاری رکھے ہوئے ہیں۔ دنیا میں جتنے بڑے بین الاقوامی ادارے اور عدالتیں ہیں وہ بہت کم مسلمانوں کے سلسلہ میں عدل و انصاف کے لیےء اقدامات کرتے ہیں ۔ ایک ہی واحد حل ہے۔ پر امن جمہوری عوامی احتجاج کو لیل و نہار جاری رہنا چاہے۔ ہمیں ہمار ے ملک میں اب بھ اپنے مطالبات منوانے کا پورا حق ہے ۔ دستوری جمہوری حقوق سے اتنی جلدی دست بردار نہیں ہو نا چاہیےء۔
NRC,NPR, CAA کے خلاف احتجاج کو دبانے کے لیےء بی جے پی ایک جانب ملک گیر سطح پر تائیدی مہم کا آغاز کرچکی ہے دوسری جانب اس نے اپنے دلالوں کو تمام جماعتوں ، حلقوں گروپوں اور سیول سوسائیٹی میں چھوڑدیا ہے جو عوام کو احتجاج نہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں ۔ جب تک یہ سیاہ قوانین واپس نہیں لئے جاتے طویل مدّت تک احتجاج پوری شدّت کے ساتھ جاری رہنا چاہیےء۔
(1)جامعہ ملّیہ کی دو طالبات نے 13 ڈسمبر کو احتجاج کے دوران پولیس کراک ڈاؤن میں اپنے ساتھی طالب علم کو لاٹھیوں سے بچانے کیلےء ڈنڈے کھاتے ہوئے جو دلیرانہ طور پر پولس کا مقابلہ کیا ۔
(2) اور اب شاہین باغ کی دادیوں نے ضعیف العمری میں جانلیوا سخت ٹھنڈک میں جوپختہ حوصلے و عزم کا اظہار NDTV پر کیا ہے اس سے ملک دم بخود ہے۔ آخر اتنا جذبہ گھریلو خواتین میں کیسا پیدا ہوگیا۔ جب ظلم بڑھنے لگتا ہے تو نہتّے ننگے بھوکے غریب عوام بھی اس وقت نبرد آزمائی کیلےء اٹھے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
(3)چندر شیکھر آزاد نے دلت بھائیوں کو مخاطب کرتے ہوئے NPR , CAA کے خلاف جو خط جیل سے بھیجا ہے وہ سنہری الفاظ میں لکھا جانے والا ہے ۔ آزاد نے لکھا ہے کہ آج یہ قانون صرف مسلمانوں کے خلاف نظر آرہا ہے لیکن کل باری دلت اور آدی واسیوں کی آنیوالی ہے۔
RSS و بی جے پی کی قیادت کو ہوش سنبھالنے چاہیےء کمزور لوگ ملک کے طول و عرض میں پر امن احتجاج میں شامل ہیں ۔ اسے پر تشدّد بتانے کی پھر پور کوشش حکومت کی جانب سے کی جارہی ہیں جو سب ناکام ہوتی جارہی ہیں ۔ حکومت کا خیال ہے کہ امتحانات قریب ہیں امتحانات کے بعد طلباء اپنے ، اپنے گھروں کو لوٹ جائیں گے اور حالات کو وہ اپنے مطابق موڑ سکیں گے۔ یہ بی جے پی کی خام خیالی ہے ۔ اس عوامی احتجاج میں مرد خواتین ، لڑکے لڑکیا ں ہر عمر کے غیور باشعور تعلیم یافتہ لوگ شامل ہیں ۔ اس احتجاج کو دبانا RSS کو کافی مہنگا پڑسکتا ہے اور اسے کراری شکست سے دوچار کرسکتا ہے۔
عوام کا مطالبہ صرف اتنا ہےکہ CAA میں مسلمانوں کو بھی شامل کیا جائے اور NPR کو بجائے سیٹیزن شپ ایکٹ کے سنسس مردم شماری قانون کے تحت کروایاجائے ورنہ ملک میں اقلیتوں کا بڑا طبقہ جسکے پاس لگیسی ڈاٹا یا تواتر کے ساتھ 5 کاغذات نہیں ہے متاثر ہوگا اور اپنی شناخت و قومیت کھودے گا۔ اس سیاہ قانون کے خلاف احتجاج اس وقت تک جاری رہنا چاہیےء جب تک اسے واپس نہیں لیا جاتا۔
ختم شد
بشکریہ اعتمار روزنامہ اردو حیدرآباد تاریخ اشاعت 05/01/2020، مصنف کے مضامیں ہر ہفتہ ملک کے 20 سے زیادہ اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں